ایک حدیث کا مطالعہ کر رہا تھاجس میں رسول خدا فرماتے ہیں کہ جس کی معیشت نہیں ہے اس کا دین نہیں ہے۔(مفہومِ حدیث)۔ تو ہم پیش نماز ہیں، اور ہمارا کوئی معیشت ہی نہیں ہے۔ اور ہمارا کام تو اکثر سے مسجد سے مربوط ہے۔ یعنی نماز پڑھانا، دین سے مربوط درس و تدریس وغیرہ ہے۔ ہم ایسے معاشرے میں ہیں جہاں مولوی، امام جماعت یا کوئی خطیب کہیں عام لوگوں کیطرح کام کرنا شروع کرے تو برا مانا جاتا ہے۔ اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ اگر کوئی ایسے کام کرنے لگ جاتے ہیں تو معاشرہ اسے مناسب نہیں سمجتا۔ میں خود کام کر رہا ہوں۔ مزید بھی کام کرنا جانتا بھی ہوں۔ لیکن مؤمنین کہتے ہیں کہ آپ پیش نماز ہے، اس طرح کام کرنا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو کیا ہم اس شعبہ (جماعت) کوہی چھوڑ دیں اور اپنی معیشت مضبوط کریں یا معیشت چھوڑ کر پیش نمازی کا کام کرتے رہیں۔۔۔؟ اس سلسلے میں وضاحت کیجیے گا۔ شکریہ

ہمارے معاشرے میں لوگوں کی کوتاہ فکری اور ستم ظریفی ہے کہ وہ امام جماعت کو عام معاشرتی معاملات سے پابند کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ اس طرح کے عوامی معاملات میں حصہ نہیں لے سکتے، وہ نہیں کر سکتے، یہ نہیں کر سکتے وغیرہ۔۔۔ جب کہ امامِ مسجد کے لیے حکومتِ اسلامی کی جانب سے کوئی تعاؤن بھی نہیں ہے، اور محلہ والوں کی جانب سے جو مالی معاونت ہوتی ہے اس سے بنیادی اہم ضروریات کی تکمیل بھی نہیں ہو سکتی۔ اگر معاشی ضرورت کی تکمیل کے لیے کوئی کاروبار وغیرہ بھی نہیں کر سکتے تو اہل محلہ کو چاہیے کہ وہ امامِ مسجد کی ساری ضروریاتِ زندگی پوری کرے۔ اگر وہ نہیں کر سکتے تو اس طرح کی غیرضرورت پابندیاں نہ لگائیں۔ اور روایت ”لا معاشَ لَه لَا مَعادَ لَه” سے مراد بنیادی ضروریات پوری ہونے کی حد تک معاش ہونا چاہیے، ہے۔