ہمارا پیش نماز ہیں۔ مسجد میں مؤمنین کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھاتے ہیں۔ اور ہماری ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے نمازی حضرات یا اہل علاقہ ہماری مالی معاونت کرتے ہیں۔ فقہی احکام میں ایک حکم ہے کہ واجب کام سکھانے کے عوض کچھ لینا جائز نہیں ہے۔ یعنی کسی کو نماز پڑھنا سکھا رہے ہیں تو اس کا معاوضہ نہیں لے سکتا۔ اب ہم پیش نماز حضرات نماز پڑھانے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار محلہ کے بچوں بچیوں کو دینی تعلیم کی تدریس بھی کرتے ہیں۔ مؤمنین کی جانب سے ہمارے لیے طے شدہ معاونت ہر ماہ مل جاتی ہے۔ تو اگر چہ وہ طے شدہ معاونت جماعت کے مد میں ہی ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی کیا جو بچوں کے لیےنماز روزے وغیرہ کے بارے میں درس دیتے ہیں ان کے عوض شمار تو نہیں ہوتا؟ کیوں کہ کبھی کبھی شک پڑتا ہے زہن میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ آیا یہ جائز ہے یا نہیں ہے؟ تھوڑی وضاحت کیجیے گا۔

امام جماعت ہمیشہ مسجد میں جماعت ہی پڑھاتا رہتا ہے۔ اس کو اگر کوئی کچھ نہ دیں تو وہ بے چارہ کھائے گا کہاں سے؟ ان کی ذمہ داری میں جن افراد کا نان و نفقہ ہے وہ کہاں سے اور کیسے کھائیں گے اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کہاں سے پوری کریں گے؟ اس طرح کا اگرمسئلہ ہو تو اسلامی حکومت میں حکم ہے کہ ان کی تمام ضروریاتِ زندگی کو بیت المال سے پورا کیا جائے۔ اور انکی تمام ضروریات کو پوری کرنا حکومتِ اسلامی پر واجب ہے۔ لیکن ہمارے یہاں نظام اسلام نافذ نہیں ہے، اور اس طرح کے معاملات نہیں سنبھال رہے۔ اب متعلقہ محلہ والے مؤمنین اپنے طور پر امام مسجد کو ماہانہ بنیادوں پر کچھ تعاؤن کرتے ہیں۔ وہ اس لیے نہیں تعاؤن کرتے کہ آپ نماز پڑھا رہے ہیں تو اس کا معاوضہ ادا کر رہا ہو، ایسا نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس لیے دیتے ہیں کہ آپ ان کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ آپ کا وقت صرف ہو رہا ہے اس لیے دیتے ہیں۔ لہٰذا ان کی طرف سے ملنے والی مالی معاونت استعمال کر سکتے ہیں۔