قومی بچت کا جو بینک ہے اس میں اگر پیسے رکھوا کے اس پہ جو ہر ماہ منافع ملے۔ مثلا قومی بچت والوں کے پاس ایک لاکھ روپے رکھتے ہیں تو وہ ماہانہ ایک ہزار دو سو روپے ہمیں منافع دیتے ہیں اور ہمارا سرمایہ ایسے ہی پڑا ہوتا ہے، جب ہم نکالنا چاہیں تو نکال سکتے ہیں ورنہ وہ بینک میں موجود ہے، اس میں کوئی کٹوتی نہیں ہوتی۔ تو اس صورت میں کیا وہ منافع لینا جائز ہے؟ یا اس منفعت کو حاصل کرنے اور استعمال کرنے میں کیا حکم ہے؟

یہ قومی بچت چونکہ سرکاری بینک ہے اور سرکاری بینک آقا سیستانی (مد ظلہ العالی) کے فتویٰ کے مطابق اس کی آمدنی یا اس بینک سے ملنے والی منفعت سود یا رباء میں شمار نہیں ہوتی کیونکہ مالک مشخص نہیں ہے۔ کیونکہ حکومت مالک نہیں بن سکتی ہے حکومت یا سرکار پر مالک کا عنوان صدق نہیں آتا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ ملنے والی منفعت مجہول المالک کے پیسے کی مانند ہے اس لیے جتنی منفعت حاصل کرے اس کا آدھا حصہ غرباء اور ضرورتمندوں میں تقسیم کریں اور بقیہ آدھا حصہ اس سرمایے کے مالک کی ملکیت میں چلی جائے گی اور وہ جیسے استعمال کرنا چاہے کر سکتے ہیں کیوں کہ ان کو اس بقیہ منفعت پر ملکیت حاصل ہوتی ہے۔