ھماری ماھانہ سرکاری تنخواہ میں سے ایک خاص رقم منھا کی جاتی ہے جو کہ ریٹائرمنٹ کے موقع پر یکمشت دی جاتی ہے ، اس کٹوتی کو ختم نہیں کروایا جا سکتا۔ اس رقم پر اختیار ہوتا کے چاہیں تو سرکاری نرخ پر سالانہ منافع لیں یا نہ لیں، تو کیا یہ منافع لیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس رقم کا 80 فیصد تک بوقت ضرورت قرض لیا جا سکتا ہے جو کہ بعد میں قسطوں میں واپس ھوتا ھے، اب اگر آپ پھلے سے منافع لے رھے ہوں تو اس قرض پر آپ کو بھی لگ بھگ وہی منافع اصل قرض کی رقم کے ساتھ ادا کرنا پڑتا ہے جو آپ کے پیسوں کے ساتھ جمع ہو جاتا ہے۔ تو کیا اولاً منافع لینا ٹھیک ہے؟ اور ثانیاً قرض لے کر اس پر یہ اضافی منافع واپس دینا کیسا ہے؟

آیۃ اللہ سیستانی (مد ظلہ) کے فتویٰ کے مطابق سرکاری نرخ پر منافع لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور قرض کے سلسلے میں؛ ربا کی شرط کے بغیر قرض لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب واپس دیتے وقت جو قرض کی اصل رقم سے زیادہ دینا پڑتا ہے تو اسے ربا یا سود کے طور پر ادا کریں گے تو جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر اسے ایسے ادا کریں جیسے ہم گورنمنٹ کے ٹیکس وغیرہ ادا کرتے ہیں مثلاً ۔ اس نیت کے ساتھ آپ وہ اضافی رقم گورنمنٹ کو ادا کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔