میرے پاس زمین کا ایک رقبہ موجود ہے اور میرا ارادہ ہے کہ وہاں گھر تعمیر کروں۔ اور گھر کی تعمیر کے لیے میرے پاس اتنا مال نہیں ہے، اس لیے میں بینک سے قرضہ لینا چاہتی ہوں، اور اس قرضہ کی ادائیگی میری اپنی تنخواہ سے کی جائے گی۔ میری تنخواہ نیشنل بینک میں آتی ہے اور میں فیصل بینک سے قرضہ حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ اور تقریباً قرضہ کی واپسی کے وقت بینک والے مجھ سے 40 فیصد مارک اپ لیتے ہیں۔ مثلاً اگر میں بینک سے 15 لاکھ روپے قرضہ لے لوں تو ادائیگی کے وقت مجھے بینک کو 20 لاکھ روپے دینا ہوگا۔ تو کیا یہ سود شمار ہوگا یا نہیں؟ اگر سود شمار ہوتا ہے تو کیا اس طرح قرضہ لینا میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟ وضاحت کیجئے گا۔

پہلی بات یہ کہ؛ آپ چونکہ ایک خاتون ہے تو آپ کے لیے اخراجات اور گھر کا اہتمام کرنے کی ذمہ داری والد کے اوپر ہے (اگر شادی نہیں ہوئی)۔ اور شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپ کے اخراجات اور گھر کا اہتمام کرے۔ (اگر شادی ہوئی ہوئی ہے تو)۔ لہٰذا آپ اتنی مجبور نہیں ہے کہ سود کے ساتھ قرضہ لینا پڑے۔ ثانیاً؛ اگر اتنی مجبور ہو کہ قرضہ لے کر گھر بنانا آپ کی ذمہ داری بنے اور لینا پڑے تو آیۃ اللہ سیستانی (مدظلہ العالی) کی مقلد ہیں تو سرکاری بینک سے قرضہ لے کر اضافی رقم کے ساتھ ادا کرے تو سود شمار نہیں ہوتی۔ اور پرائیویٹ بینک سے قرضہ لیں تو جو اضافی رقم ادا کرتے ہیں تو وہ سود شمار ہوگی۔ لیکن اگر آپ آیت اللہ سیستانی کے علاوہ کسی دوسرے مجتہد جیسے رہبرمعظم سید علی الخامنہ ای (مدظلہ) کی مقلد ہیں تو ان کے فتویٰ کے مطابق اس طرح سود پر قرضہ لینا (رباء) شمار ہوتا ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔