سوال ایک لڑکی ہے جس کی دو طلاق ہوچکی ہے اور ابھی ا سکے والدیں اس کی شادی کرنا چاہتاہے لیکن وہ تاکہ بعد میں کوئی رشتہ نہ آنے کی وجہ سے کسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑھے لیکن وہ لڑکی راضی نہیں ہے ا س کی پہلی حالت کی وجہ سے تو کیا ان کے والدیں کو اس میں حق ہے کہ وہ زبردستی ان کی شادی کرے اور اس حوالے سے والدیں کا کیا کیا حق ہے اور ساتھ یہ بھی بیاں کرے کہ لڑکی اس حد تک اپنی رائی کا اظہار کرسکتی ہے ؟

جواب اگر پہلی شادی میں صرف نکاح ہوئی ہو اور رخصتی نہیں ہوئی ہے تو اس صورت میں بعد میں کرنے والی شادی کے لیے بھی والد اور لڑکی دونوں کی رضایت شرط ہے اورماں اور باب میں سے کسی بھی شادی پر زبر دستیکرنے کا حق نہیں ہے اور باب کی اجازت اوربیٹی کی رضایت دونوں شرط ہے لیکن اگر پہلی نکاح کےبعد رخصتی بھی ہوئی ہو تو اس صورت میں باب کا ولایت ختم ہوتا ہے اور لڑکی کی اپنی مرضی ہے کہ وہ جدہر شادی کرنا چاہے کرسکتاہے البتہ باب کے حیثیت سے مشورہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ولایت نہیں ہوتی ہے