بعض احادیث کے بارے میں ہم نے سنا ہے کہ کوئی شخص کھلم کھلا گناہ کرتا ہو تو اس سے تعلق نہ رکھا جائے۔ اور دوسری کسی حدیث کے بارے میں سنا ہے کہ جو خاندان متحد ہو اور ایک دوسرے سے صلہ رحمی کرتے ہوں تو اللہ ان کو رزق دیتا ہے، خواہ وہ گناہگار ہی کیوں نہ ہوں اور جو خاندان منقسم ہوں اور ایک دوسرے سے قطع رحمی کر دے تو اللہ ان کو رزق سے محروم کر دیتا ہے خواہ وہ متقی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ دو قسم کے احادیث کے مفاہیم ہمارے سامنے ہے۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے گناہوں پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے ہیں۔ کھلم کھلا گناہ کرتا ہے اگر ہم اس کو ٹوکا جائے تو کہتے ہیں کہ یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے ہمیں اپنے قبر میں خود جواب دینا ہے وغیرہ وغیرہ، تو کیا ایسے شخص کے ساتھ صلہ رحمی قائم رکھنا چاہیے جیسے دوسری حدیث کا مفہوم سے ایسا کچھ سمجھ آ رہا ہے۔ یا ایسے شخص سے تعلق توڑ کر قطع رحمی کی جائے جیسے پہلی حدیث کامفہوم کہتا ہے۔؟؟؟

جو آپ نے اپنے سوال کے مقدمہ میں دو احادیث کے مفہوم بیان کیے ہیں وہ دونوں اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بعد بھی وہ دوسرا شخص نہ مانے اور اپنے گناہوں پر ڈٹے رہے تو اس صورت میں اس شخص کے ساتھ بائیکاٹ کرنا صلہ رحمی کے منافی نہیں ہے۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ احکام شریعت کے مطابق عمل کرنا اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ مل جل کے اتفاق و اتحاد کے ساتھ خوش رہنا صلہ رحمی ہے۔ اب جب ہمارا دوسرا رشتہ دار شریعت اور دین کے ساتھ ہی مزاق اڑا رہا ہے اور احکامِ دین کو اہمیت نہیں دے رہا تو ایسے شخص کی شریعت کی نگاہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔