میں اپنے کچھ پیسے بینک میں ایک سال کے لیے انویسٹ کرنا چاہتا ہوں تاکہ ایک سال بعد پرافٹ (فائدہ) ملے مجھے۔ تو کیا مجھے اسلامک بینک میں رکھوانا چاہیئے یا عام بینکوں میں؟ کیونکہ آج کل ہر بینک کا دو قسم چل رہا ہے ایک اسلامک بینکنک دوسرا نارمل بینکنگ۔ تو کیا کروایا جا سکتا ہے؟ اسلامک بینکنگ میں بھی پرافٹ ہوتے تو ہیں لیکن فکسڈ نہیں ہوتا لیکن باقی بینکوں میں فکسڈ ہوتا ہے۔ تو کیا مجھے اسلامک بینکنگ میں انوسٹ کرنا چاہیے یا دوسرے بینکوں میں؟ اور نیشنل بینکوں (سرکاری بینکوں) کے بارے میں میں نے سنا تھا کہ آیت اللہ سیستانی (مدظلّہ) کے فتوی کے مطابق جو پرافٹ ہمیں ملتا ہے اس کا آدھا کسی غریب کو دینا ہے۔ تو کیا دوسرے بینکوں میں جیسے بینک الحبیب وغیرہ سے ہمیں جو پرافٹ ملتا ہے اس میں سے بھی ایک حصہ کسی مؤمن مستحق غریب کو دینا ہوگا کیا؟ اور بینک میں انوسٹ کئے ہوئے پیسوں کا پرافٹ ملتا ہے تو اسی وقت خمس دینا چاہیے یا پرافٹ ملنے کے سال گزرنے یا خمس کی تاریخ آنے کے بعد خمس ادا کرنا چاہیئے؟ ان سوالات کا جواب دیجئے گا۔

آیت اللہ سیستانی مد ظلہ العالی) کے فتویٰ کے مطابق سرکاری بینکوں میں جو سیونگ اکاؤنٹ میں پیسے رکھے جاتے ہیں اور اس کا جو پرافٹ (منافع/فائدہ) ملتا ہے تو وہ منافع سود اور ربا نہیں ہوگا بلکہ مجہول المالک شمار ہوتا ہے کیونکہ گورنمنٹ کے بینک کا مالک مخصوص نہیں ہوتا۔ اور مجہول المالک والے مال کو جائز طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے شرط ہے کہ اسے اس کا آدھا حصہ غریب مستحقین کو دے دیں۔ اس کے بعد باقی جو آدھا حصہ بچا ہے اسے اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں۔ لیکن پرائیویٹ بینکوں (اس میں کوئی فرق نہیں کہ چاہے وہ پرائیویٹ بینک اسلامک ہو یا نان اسلامک) میں اگر منافع فکسڈ ہو تو وہ سود اور ربا میں شمار ہوتا ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔ اور اگر منافع فکسڈ نہ ہو بلکہ اس طرح ہو، وہ یہ کہیں کہ آپ کے پیسوں کو کاروبار میں استعمال کرنے کے بعد اس سے جو آمدنی اور منافع ہوگا اس کا ایک حصہ آپ کو بھی دیں گے۔ تو اس طرح بینک سے منافع کمانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ جائز ہے۔