آغا، مہربانی کر کے رہنمائی کر دیں کہ گورنمنٹ بینک سے انٹرسٹ (Interest) پہ قرضہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ آغا سیستانی کے مقلدین کے لئے فتویٰ بتائیے گا؟

سرکاری بینکوں سے قرض لینا ، سود دینے کی شرط پر جائز نہیں ہے چونکہ یہ سود ہے اور اس میں کسی رھن کو رکھنے یا نہ رکھنے میں کوئی فرق نہیں ہے اگر کوئی شخص اس شرط کےساتھ سرکاری بینک سے قرض لے تو قرض اورشرط دونوں باطل ہیں ۔اس لئے کہ بینک اپنے مال کا مالک نہیں ہے کہ قرض دینے والے کی ملکیت میں قرار دے۔ اس مشکل سے نجات کےلئے قرض لینے والا حاکم شرع ( مرجع تقلید) کی اجازت سے مطلوبہ رقم کو اس اعتبار سے قرض لےکہ بینک کاسرمایہ مجھول المالک ہے اور اس میں تصرف کااختیار حاکم شرع کو ہے۔ اوریہ اجازت ہم نے تمام مومنین کو دے دیا ہے اور اتناکافی ہےکہ کوئی شخص بینک سے پیسہ لے لے او رلیتے وقت اپنے دل میں کہےکہ اس رقم کوحاکم شرع کی طرف سے اپنے آپ کو قرض دیا۔ اوراس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ یہ جانتا ہو کہ بےشک قانون کے مطابق اصل رقم کو سود کے ساتھ ادا کرنے کا پابند ہے۔ (https://www.sistani.org/urdu/book/61/4558)