اگر کوئی شیعہ شخص اپنی زندگی میں اپنے ایک بیٹے کو منقولہ و غیر منقولہ جائیداد اسٹام فارم پر لکھ کر وارث قرار دے اور دوسری تمام اولاد کو محروم کر دے اس مذکورہ شخص کی وفات کے بعد اس کی تمام جائیداد کامالک وہ ایک بیٹا ھی ھو گا یا ساری اولاد برابر وارث ھو گی۔

اگر کوئی اپنی زندگی میں اپنے اموال منقولہ و غیر منقولہ نہ صرف اپنی کسی ایک اولاد کو بلکہ کسی دوسرے شخص کے نام کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اپنے اموال کا مالک ہے تو مالک کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اپنا مال جس کو بھی دینا چاہے دے سکتے ہیں۔ اس پر اعتراض کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں۔ ہاں نصیحت کر سکتے ہیں۔ کہ اولاد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے وغیرہ۔ اور اگر وہ وصیت کرے اور یہ کہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا سارا مال (منقولہ و غیر منقولہ) میرے فلان بیٹے یا بیٹی کو دیا جائے۔ تو اس کی وفات کے بعد اس کے کل اثاثہ (سارے اموال منقولہ و غیرمنقولہ) کے ایک تہائی حصے کا وہ بیٹا/بیٹی حقدار ہوگا/گی۔ باقی دو تہائی حصہ تمام وارثین میں تقسیم وراثت کے اصولوں کے مطابق تقسیم کئے جائیں گے۔ (مثلا اگر اس کا ترکہ (اموال منقولہ و غیر منقولہ) تین لاکھ ہے تو ایک لاکھ اس کا ہوگا جس کے نام وصیت ہوگی۔ اور باقی دو لاکھ تمام وارثین میں تقسیم کئے جائیں گے۔) ہاں اگر باقی اولاد کہے کہ چونکہ ہمارے والد صاحب کی وصیت ہے فلاں بھائی/بہن کے نام تو سارا مال اس (بھائی/بہن) کو ہی دیے جائیں، ہماری طرف سے اجازت ہے۔ ایسی صورت میں سارا مال اسے دے سکتے ہیں جس کے نام وصیت ہوگی۔ ورنہ شریعت کے قانون وصیت ، قانون وراثت کے مطابق ایک تہائی حصہ اس کا ہوگا جس کے نام وصیت کئ گئی ہے باقی دو تہائی حصہ سارے وارثین میں تقسیم کئے جائیں گے۔