مرنے والوں کے پیچھے جو ہم کچھ دیتے ہیں تو صدقہ کرنے چاہیئں یا ان کی نیاز کے طور پر دینے چاہیئں۔ مثلا ہم ماہ رمضان المبارک میں کوئی کپڑے کا سوٹ خرید کر اس کے ساتھ فروٹ، دودھ وغیرہ رکھ کر نیاز دے کے کسی غریب کے حوالے کرتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ مرحوم کو ثواب پہنچانے کےلئے کونسا ایسا طریقہ ہے جس پر عمل کرنے سے اس کو قبر میں زیادہ فائدہ مل سکتا ہے؟ کیا نیاز کی صورت میں دینا چاہیے یا صدقہ وغیرہ؟

مختلف علاقوں میں مختلف نوعیت کے رسومات ہوتے ہیں۔ لیکن اس بات میں دورائے نہیں ہے کہ میت کے نام پہ قیمت والی کوئی بھی چیز کسی نیک کام میں خرچ کر کے اس کو مرحوم کے نام ہدیہ کرے تو اس کو ثواب مل جاتا ہے۔ تو آپ مرحوم کے نام کوئی کپڑا دے دیں، کھانے کی کوئی چیز دے دیں، سکول میں جانے والے کسی غریب بچے کو کاپی قلم دے دیں، غرض یہ کہ کسی ضرورت مند کو اس کی ضرورت کے مطابق ایسی کوئی چیز دے یا ایسا کوئی کام کرے کہ اس غریب اور ضرورتمند کی ضرورت پوری ہو جائے۔ ہم سے جو کام ہو سکتا ہے وہ کرے مثلا صرف پچاس روپے کسی غریب کو دے دیں، سردی میں کسی غریب کو ایک جراب دے دیں، ایک ٹوپی دے دیں کسی غریب کو، دو رکعت نماز پڑھ کر اس کو ہدیہ کریں، قرآن مجید کے چند آیات یا سورہ کی تلاوت کر کے اس کا ثواب ہدیہ کریں، ایک دن یا چند دنوں کا روزہ رکھ کر اس روزے کا ثواب اس کو ہدیہ کریں۔ اس طرح کے سارے کام نیکیوں میں شمار ہوتا ہے، اس طرح کا کوئی کام جو ہم سے ہو سکتا ہے وہ کر کے اس مرحوم کے روح کو ہدیہ کریں تو مرحوم تک اس کا ثواب پہنچ جاتا ہے۔ رسم و رواج پر عمل کریں تو ہمیں قرض لینا پڑتا ہے مثلاً، تو اس طرح رسومات پر عمل کر کے مجبوری حالت میں بھی رسوم پر عمل کر کے کپڑے ہی دینا ضروری نہیں، بلکہ اوپر چند مثالیں ذکر ہوئی ہیں اس طرح کوئی بھی چھوٹی سی چھوٹی نیکی بھی اگر ہم کر سکتے ہیں تو وہ کام کر کے اس کا ثواب اس مرحوم کے روح کو ہدیہ کردیں تو اس کو ثواب پہنچ جاتا ہے۔ کیونکہ خداوند عالم انسان کے خلوص کو دیکھتا ہے کہ اس نے راہ خدا میں کتنے کس نیت سے ساتھ دیا ہے۔ اللہ تعالی ج یہ نہیں دیکھتا کہ کیا دیا ہے اور کتنا دیا ہے۔ اگر کوئی راہ خدا میں لاکھوں خرچ کرے لیکن خلوص نہ ہو دکھاوا ہو تو خدا کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جب کہ ایک غریب بندہ ایک روپیہ دیتا ہے لیکن خلوص کے ساتھ دیتا ہے تو وہ ایک روپیہ خدا کے سامنے قیمتی ہے۔ اس کا اجر دیتا ہے۔