کبھی کبھار ہم سے یہ سوال ہوتا ہے کہ آپ نماز میں ”إیاك نعبد وإیاك نستعین“ پڑھتے ہیں تو اس کے باوجود بھی تم غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ اس طرح جب ہم “یا علی مدد“ مدد کہتے ہیں تو وہ اسی قرآنی آیت شریفہ کو ہمارے سامنے رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے، تم لوگ شرک کرتے ہو، ۔ تو ان کے لئے کیا جواب دینا چاہئے۔؟

آپ ان سے کہہ دیں کہ جب تم سفر کرتے ہو تو گاڑی، بس، ریل وغیرہ کی کا استعمال نہ کریں ان چیزوں کی مدد نہ لیں بلکہ الله تعالیٰ ج مدد لیں۔ چھت پر جانا ہو تو سیڑھی کی مدد نہ لیں اللہ سے مدد طلب کریں، اسی طرح چھوٹے بچے کو دودھ کی ضرورت پڑے تو ماں سے نہ طلب کریں بلکہ اللہ سے مانگیں۔ ان مثالوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس دنیا میں ہر کوئی دوسرے پر کسی نہ کسی لحاظ سے محتاج ہوتا ہے۔ اگر ”یاعلیؑ مدد“ کہنا (امام علی علیہ السلام سے مدد مانگنا) اگر بدعت اور شرک ہے تو مذکورہ مثالوں میں جو تم کرتے ہو وہ بھی شرک جیسے ہی ہے۔ دنیا میں ہر ایک دوسرے پر محتاج ہے، لیکن کسی کی احتیاج کم ہے تو کسی کی زیادہ۔ چند اور مثالیں پیش خدمت ہے: جب کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی ج کے پاس جانا چاہیئے، ڈاکٹر کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ جب کوئی عدالتی مسئلہ درپیش ہو تو بھی اللہ تعالیٰ ج کے پاس جانا چاہیئے، وکیل/قاضی کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ جب کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کو ”نِعمَ الوَكِیل“ کہا گیا ہے تو عدالتی مسئلہ کے سلسلے میں بھی اللہ کے پاس جانا چاہئے دنیوی وکیل کے پاس کیوں جاتے ہو۔ گھر یا کوئی عمارت کی تعمیر کے لئے بھی اللہ تعالیٰ ج کے پاس جانا چاہیئے، مستری اور انجینئر کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ لہٰذا یہ جواب ہے ان کےلئے جو “یا علیؑ مدد“ کہنا شرک اور بدعت سمجھتے ہیں۔ (والسلام علی من التبع الھدیٰ)