طلاق سے مربوط ایک سوال ہے کہ بیوی کے کہنے پر 2013 میں ان کو طلاق دی گئی۔ پچھلے سال ان کے والد سے پوچھ کر اس خاتون کی پاکیزگی کی حالت میں علامہ صاحب سے طلاق کے صیغے بھی جاری کروائے۔، علامہ صاحب نے دو جاننے والے کوئی آدمیوں کو گواہ کےلئے لانے کا کہا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے دوست کو میں نہیں جانتا کہ عادل ہے یا نہیں۔ تو کیا ان کی گواہی قبول ہوگی یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس طلاق کے اور عدت گزارنے کے بعد کیا عورت پوری طرح آزاد ہے کہ وہ جہاں بھی چاہے شادی کر لے؟

گواہوں میں اس حد تک جاننا کہ وہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے نہیں اور واجبات ترک کرنے والا نہیں، کافی ہے۔ باقی اس کے بارے میں معلومات ہونا ضروری نہیں۔ اسلامی طریقے سے شرائط کے ساتھ طلاق کا صیغہ جاری کرنے کے بعد اور عدۃ ختم ہونے، تین دفعہ ایام عادت آنے کے بعد وہ آزاد ہے۔ اب وہ جہاں جس سے شادی کرنا چاہے کر سکتی ہے۔