ہمارے گاؤں میں تو بعض سادات جن کو میں جانتا ہوں وہ مالدار ہیں۔ ان کو تو خمس نہیں دے سکتے۔ لیکن دوسرے سادات کے بارے میں میں نہیں جانتا کہ کون سید ہے اور کون نہیں۔ کیا وہ حقدار ہیں یا نہیں۔ یہ نہیں معلوم مجھے۔ تو کیا میں خمس کی مد میں نکالی گئی رقم یا مال کا حصہ پورا اپنے رشتہ دار حقداروں میں تقسیم کر سکتا ہوں؟ ایسی صورت حال میں میری کیا ذمہ داری ہے؟

اولاً یہ کہ سال کے اخراجات نکالنے کے بعد جو بچت ہوتی ہے اس پر خمس واجب ہوتا ہے۔ ہر آمدنی پر خمس واجب نہیں ہوتا۔ ثانیاً خمس کا مطلب ہے پانچواں حصہ۔ یعنی سالانہ آمدنی کی بچت کا پانچواں حصہ خمس حساب ہوتا ہے۔ ؔثالثاً اس پانچویں حصے کو نکال کر دو الگ حصوں میں تقسیم کریں گے؛ ایک مال امام اور دوسرا مالِ سادات مال امام (سہمِ امام) لے جا کر مرجعِ تقلید یا ان کے وکیل کے حوالے کریں گے۔ یا اس شخص کو جس کے پاس مجتہد یا وکیلِ مجتہد کا اجازت نامہ ہو۔ لیکن سہم سادات، آیۃ اللہ سیستانی (مدظلہ العالی) کے فتویٰ کے مطابق حقدار سید کو دیا جا سکتا ہے۔ لیکن آیۃاللہ خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے فتویٰ کے مطابق سہمِ سادات بھی مرجعِ تقلید یا اس کے نائب تک پہنچانا ضروری ہے۔ وہ خود مستحقین میں تقسیم کریں گے۔ یا ان سے اجازت لیں، پھر آپ خود بھی مستحقین میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ مال سادات سید حقدار کے علاوہ کسی کو بھی نہیں دیا جا سکتا۔ (حقدار سید: (۱) اس کے سید ہونے کا علم ہو۔ (۲) اس کی آمدنی خرچے سے کم ہو۔ (۲) ظاہراً وہ دین کے احکام کے پابند ہو اور جو مال آپ خمس کا جس سید کو دیتے ہیں وہ اسے فضول خرچ نہ کرے۔)