کیا مغربی ممالک میں طلبہ جو اپنے تعلیمی اخراجات کے لئے بینک سے قرضہ لیتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟ کیونکہ اس پہ ادائیگی کے وقت سود سمیت ادا کرنا ہوتا ہے۔ تو ایسی صورت میں ان کا قرضہ لینا جائز ہے؟

اگر کوئی مغربی ممالک کے بینک سے قرضہ لے لے، اور اور ادائیگی کے وقت سود سمیت ادا کرے تو حضرت آیۃ اللہ سیستانی (مد ظلہ العالی) فرماتے ہیں؛ چونکہ گورنمنٹ مالک نہیں بنتی، اس لئے بینک سے رقم لیتے ہوئے قرضہ لینے کی نیت نہ کرے۔ گویا کہ رقم آپ کو کسی جگہ سے ملی، اور دیتے وقت جس طرح بجلی، گیس ٹیلی فون وغیرہ کا بل یا دیگر چیزوں پر جو ٹیکسز دیتے ہیں، اسی طرح بینک کو اضافی رقم ادا کرے۔ اس طرح کرے گا تو یہ قرضہ شمار ہی نہیں ہوگا۔ اور سودی قرض والے حکم سے بچ جائے گا۔ لیکن بعض دیگر مراجع مثلاً رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے حکم کے مطابق گورنمنٹ بینک کا مالک بنتاہے، اس صورت میں بینک سے قرضہ لینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اضافی رقم (سود) سمیت ادا کرنے میں اشکال ہے۔ لیکن ہاں، اگر قرضہ لینا بہت زیادہ ضروری ہو مجبوری کی حد تک ہو تو مجبور کے لئے علٰیحدہ حکم ہے، اس طرح قرضہ لینا جائز ہو جاتا ہے۔