مولانا صاحب، اگر میں کسی سے ایک لاکھ قرضہ لوں اور اسے یہ کہوں کہ اس ایک لاکھ پر ۲۵۰۰ روپے ہر مہینے دوں گا۔ تو کیا یہ صحیح ہے، شریعت کے حساب سے؟

اگر آپ کاروبار کر کے اس کی آمدنی سے اتنی رقم دونگا، یہ کہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ اچھا کام ہے کیونکہ اس طرح آپ کسی کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ کسی سے ایک لاکھ روپے کا قرضہ لے اور واپس کرتے وقت جتنے مہینے آپ کے پاس وہ قرضہ رہا ہے ہر مہینہ کے حساب سے ۲۵۰۰ روپے اس ایک لاکھ پر اضافہ دیتے جائیں تو اگر قرضہ لیتے یہ معاملہ قرار پایا ہو تو اس صورت میں یہ سُود (ربا) کے حکم میں آتا ہے، جو کہ جائز نہیں ہے۔ ایک تیسری صورت بھی ہے کہ قرضہ لیتے وقت قرض دینے والے کی طرف سے یہ طلب نہیں ہے کہ واپسی کے وقت اتنی رقم اضافی لی جائے گی۔ بلکہ انہوں نے خاموشی سے آپ کی ضرورت کے وقت مدد کی اور قرضہ دیا تو آپ اپنی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرض کی رقم ایک لاکھ کے ساتھ ہرمہینے کے حساب سے ۲۵۰۰ روپے یا کوئی اور رقم اضافی دے دیں تو یہ بھی اچھی بات ہے۔ اس نے آپ کی ضرورت کے وقت مدد کی، اور آپ نے بھی اس کو بہتر طریقے سے اس مدد کا صلہ دیا۔ یہ صورت بھی جائز ہے۔