معتہ کے بارے میں علماء کرام کی زمانۂ عصر میں کیا رائے ہے؟ اور معہ کا شریعت کے مطابق کیا طریقہ ہے؟ دور حاضر میں اگر کوئی شخص متعہ کرنا چاہے تو اس کے بارے میں کن باتوں کو زیرِ غور رکھنا پڑے گا؟ اس کے بارے میں ذرا تفصیل سے آگاہ کیجیے گا۔

نکاح کی دو قسمیں ہیں: 1۔ دائمی نکاح 2۔ انقطاعی نکاح (متعہ) دائمی نکاح میں مدت معین نہیں ہے، طلاق ہوتی ہے، اور اس کی عدت تین طہر یا تین ماہ ہے، دائمی نکاح کے ساتھ میاں بیوی میں سے کوئی ایک انتقال کر جاتا ہے تو دوسرے سے ارث لیتا/لیتی ہے۔ جبکہ انقطاعی نکاح یعنی متعہ میں مدت معین ہوتی ہے مثلا ایک ماہ، ایک سال، پانچ سال وغیرہ۔ اس کی طلاق نہیں ہوتی بلکہ مدت معاف کی جاتی ہے۔ اور اس کی مدت 45 دن ہے۔ اور اس میں میاں بیوی ایک دوسرے کے ارث کا حقدار نہیں ہوتا۔ نکاح متعہ بھی نکاح دائمی کی طرح فقہِ جعفریہ میں ایک حلال طرز نکاح ہے فرق صرف مدت کا ہے۔ اس میں مدت کا تعین ہوتا ہے جبکہ نکاحِ دائمی میں مدت کا تعین نہیں ہوتا۔ نکاح متعہ کا طریقہ بالک دائمی نکاح جیسا ہے۔ مجتہدین کے رسالاتِ عملیہ میں مکمل طریقہ لکھا ہوا ہوتا ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ یا آیۃ اللہ سیستانی (مدظلہ العالی) کے ویب گاہ پر اس لنک کے ذریعے جا کر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ https://www.sistani.org/urdu/book/61/3649/