سوال میرا سوال یہ ہے کہ میں ایک ٹیچر تھی جب میں جاب کرتی تھی تو ہمارے ایک دوست نے یہ مشورہ دیا کہ آپ مرکز قومی بچت میں ماہانہ دو دو ہزار جمع کرے سات سال تک اور میں نے ایسا کیا اورسات سال پورا ہونے کے بعد سے ان کا ٹکس کاٹ کر مجھے ہر ماہ اٹھارہ سو روپیہ دیتا رہا اور میں یہ لیتی رہی لیکن کچھ مدت بعد مجھے پتہ چلا کہ یہ سودہے تو میری ضمیر میری ملامت کرتی رہی لیکن میں نے پھر بھی لیتی رہے لیکن ابھی میں نے اپنا اصل پیسہ نکال لیا اور وہ کام چھوڑ دیاہے اور میر ا دوسرا سوال یہ ہے کہ میں کمیٹی ڈالی تھی فکس کرے کے فرض کرے پچاس ہزار کی اور وہ دس کے بعد ڈبل ہوکے ملی ہے مجھے اور وہ میں نے گھر پر خرچ کیا ہے اور میں نے ریٹائرڈ مند کے جو رقم ہے وہ مرکز قومی بچت میں جمع کی تھی اور اس کے مجھے ایک لاکھ پر گیارہ سو روپے ملتی تھی اور دومیان میں جب معیشت کم ہوئی تو ٹھورا کم ہوا اور ابھی زیادہ ہواہے اور یہ کم اور زیادہ ہوتا رہتاہے اور ابھی دوسالوں سے میں یہ رقم نہیں نکالا ہے کیونکہ میرا دل مطمئن نہیں تھا اس سے اور میرا ایک سوال یہ بھی ہے کہ میرا لڑکا جاب کرتاہے اور ہم ایک کرایہ کے گھر میں رہتاہے اور اس کے تنخواہ سے کچھ بچتاہے لیکن اور جب بینک سے پیسہ نکالتاہے تو وہ اس نیت سے نکالتاہے کہ وہ اس سے پہلے والا کا ہے ؟

جواب پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ مرکز قومی بچت میں جو پیسہ جمع کیا اور اس سے جو فائدہ ملتاہے وہ بینک والے اپنے پالیسی کے تحت دیتاہے یا آپ اور ان کے دومیان معاہدہ ہواتھا اگر بغیر معاہدے کے وہ اپنے پالیسی کے تحت دیتاہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اور آپ کس کے تقلید کرتے ہے اگر اغا سستانی کی تقلید کرتے ہیں تو ان کے نزدیک سرکاری بینک سے جوفائدہ ملتاہے تو وہ مجھول مالک کے حکم میں اتاہے وہ حرام نہیں ہے لیکن آپ کو ا سکے ادھا حصہ کسی غریب کو دینا ہوگا اگر چہ وہ آپ کا کوئی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو لیکن آغا سستانی کے مقلد ہے تو آغا صاحب اس صورت میں بھی حلال نہیں سمجھتاہے اور دوسری سوال کا جواب بھی یہ ہے کہ اگر آپ اغا سستانی کے مقلد ہے تو ادھا کا اصل پیسہ ہوگیا اورادھا فائدہ جو فائدہ کی صورت میں جوملا ہے اس کا ادھا حصہ کسی غریب کو دے دیے لیکن اگر اغا خامنائ کا مقلد ہے تو آپ اس کو حاکم شرع کی حوالہ کرے اس کو واپس نہ دے