آغا صاحب، میرے ایک دوست نے آپ کا پروگرام دیکھا ہے جس میں فقہی مسائل پر گفتگو ہوئی ہے، اس پروگرام میں اس موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ ”بیوی کن وجوہات کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں یا وہ کونسے اسباب ہیں جن کی وجہ سے اگر کسی بندے کے ساتھ بد فعلی ہو تو اس کی ماں، بہن اور بیٹی کے ساتھ نکاح نہیں ہوسکتا۔“ اب اس دوست کے ساتھ یہ مسئلہ درپیش ہے کہ اس نے کسی لڑکے کے ساتھ کم عمری نابالغی کی عُمر میں بد فعلی کی ہے۔ لیکن جو فعل ان سے سرزد ہوئی ہے وہ ایسے واقع نہیں ہوا جیسے بالغ افراد جِماع/ہمبستری وغیرہ کرتے ہیں۔ بس بچگانہ کھیل میں مَسَلنے کی حد تک ہوا تھا۔ اس کے بعد ان کی شادی اس لڑکے کی بہن کے ساتھ ہوئی ہے جس کے ساتھ بچپنے میں اس مذکورہ بچگانہ حرکت واقع ہوئی تھی۔ اب ان کی شادی کو تقریباً بیس سال ہو چکے ہیں، ان کے بچے بھی ہوئے ہیں۔ اب آپ کی گفتگو سن کر اس کو پریشانی لاحق ہو گئی ہے، اب اس کی شادی کا کیا ہوگا؟ مہربانی فرما کر اس مذکورہ مسئلے میں میرے دوست کی اب کیا ذمہ داری ہے؟ وضاحت کیجئے گا۔

اگر غسل واجب ہونے کی حد تک وہ فعل (حرام) سرزد ہوا ہو تو اس لڑکے کی بہن اس کے دوست کےلئے حرام ہے۔ اور اس کی حرمت اب بھی باقی ہے۔ ان کو الگ ہونا چاہیئے۔ اور اگر غسل واجب ہونے کی حد تک نہیں ہوا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے وہ حرام نہیں ہوگا۔ ان کا نکاح درست ہے۔ غسل واجب ہونے کا معیار ”سپاری کا داخل ہونا“ ہے۔ چاہے منی خارج ہو یا نہ ہو۔ اگر فاعل کے شرمگاہ کی سپاری مفعول کے شرمگاہ کے اندر داخل ہو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر غسل واجب ہونے کی حد تک وہ کام ان سے سرزد ہوا ہے تو اسے چاہیئے کہ اپنی بیوی سے فوراً الگ ہو جائے۔ اور اگر ایسا نہیں ہوا یعنی اصلاً (شرمگاہ شرمگاہ میں) داخل ہی نہیں ہوا ہے تو اس صورت میں کوئی مسئلہ نہیں۔