چور کی سزا قرآنی تعلیمات کی روشنی میں، ہاتھ کاٹنا ہے، میرے جہاں تک میں جانتا ہواہل سنت علماء چور کے پورے ہاتھ کو کاٹنے کا حکم دیتے ہیں جبکہ ہمارے علماء(اہل تشیع) کہتے ہیں کہ چور کے ہاتھ کی انگلیاں کاٹ دی جائیں گی۔ تو اس کی کیا وجہ ہے آغا جان؟ اس کی وضاحت کیجئے گا۔

”وَأَنَّ المَسَاجِدَ لِلهِ۔۔۔“ قرآنی حکم کے مطابق سجدہ کے اعضاء اللہ تعالیٰ ج کےلئے ہے۔ لہٰذا اور اسی کے ذیل میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق چور کو سزا دیتے ہوئے اس کا پورا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا بلکہ اس کے اس کی انگلیاں کاٹ دی جائیں گی۔ کیوں کہ نماز کے سجدے کے وقت ہاتھ کی ہتھیلی کو زمین پر رکھنا واجب ہے۔ فقہاء فرماتے ہیں کہ سجدہ کی حالت میں اعضاءِ سبعہ (سجدے میں زمین کے ساتھ مس کئے جانے والے اعضاء) کا زمین پر رکھنا ضروری ہے۔ اگر چہ اس شخص نے چوری کی ہے لیکن پھر بھی اس پر نماز واجب رہتی ہے۔ اور نماز میں زمین پر رکھے جانے والے اعضاء کا کم کرنا مناسب نہیں ہے۔ اور امام علیہ السلام کی حدیث کے مفہوم سے بھی واضح ہو گیا کہ چور کی سزا کے طورپر اس کا ہاتھ کلائیوں سے نہیں بلکہ صرف انگلیاں کاٹ دیں گے۔