سلام علیکم، مولانا صاحب، میری جاب (نوکری) ہے۔ اور تنخواہ 32000/ روپے ہے اور گھریلو اخراجات میں سارے پیسے استعمال ہو جاتے ہیں۔ اور کسی اہم کام کے لیے زبردستی بچت کرنی پڑتی ہے تو کیا ایسی حالت میں مجھ پہ خمس اور زکواۃ واجب ہے؟ اور بچت کی رقم جو بھائی کی مدد کے لیے اکٹھی کرنی ہے تو اس پہ بھی خمس کا کیا حکم ہے؟ اور خمس کس کو دیا جا سکتا ہے؟ مہربانی فرما کر وضاحت کیجیے گا۔ میرے پاس ٹی وی سہولت نہیں ہے تاکہ ٹی وی پر سے آپ کے فقہی احکام کا پروگرام استفادہ کروں۔

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته خمس اور زکواۃ ادا کرنے سے مال میں برکت ہوتی ہے۔ محفوظ کی گئی رقم چاہے اپنے لیے بچا کر رکھا ہو یا کسی دوسرے کے لیے، اگر چہ اس کی مالیت کم ہی کیوں نہ ہو، ایک سال گزر جائے یا خمس کی جو تاریخ (آپ نے طے کر رکھی ہے) آ جائے تو اس مال پر خمس واجب ہو جاتا ہے۔ اور اس مال کا پانچوں (1/5) حصہ خمس کے طور پر الگ کریں گے۔ اور مجتہد یا مجتہد کے وکیل تک پہنچائیں گے اور وہ اس خمس کے مال کو دو حصوں میں بانٹ کر ایک حصہ خمس کے حقدار سادات کو دے دیں گے اور باقی حصہ غیر سادات حقداروں اور ضرورتمندوں میں تقسیم کریں گے۔